حضرت مفتی محمود رح صاحب جبل استقامت.....
مفتی صاحب کے پاوں کا انگوٹھا شوگر کے زخم کی وجہ سے بہت زہریلا ہو گیا تھا اور خطرہ بڑھ گیا کہ اگر اِسے نہ کاٹا گیا تو کل کو پورا پاوں کاٹنا پڑ سکتا ہے کیونکہ زہر بہت تیزی سے پھیل رہا ہے. آخر مفتی صاحب کو سرجن ڈاکٹرز نے منوا لیا اور مفتی صاحب اس شرط پر راضی ہوئے کہ بغیر بے ہوش ہوئے کٹواوں گا. سرجنوں نے کہا حضرت یہ بہت تکلیف دِہ مرحلہ ہو گا درد کی شدت براشت نہ ہو سکے گی. مفتی صاحب نے فرمایا میں پھر آپریشن ہی نہیں کرواوں گا. (میرا خیال ہے انیس سو ستتر اٹھتر سَن میں انجیکشن کے ڈریعہ سے جسم کاحصہ سُن یا بے حِس کرنے کی دوا ایجاد نہیں ہوئ تھی.صرف بے ہوشی والی دوا اینستھیزیا کے لئیے استعمال ہونے والی میڈیسن ہی نکلی تھی.
ڈاکٹروں نے کہا ٹھیک ہے اگر اپ نہیں چاہتے ہیں تو نہیں
بے ہوش کریں گے. مفتی صاحب نے راولپنڈی جامعہ اسلامیہ صدر میں ہمیں خود یہ واقعہ سنایا فرمایا ڈاکٹرز نے
آخری وقت میں پھر زور لگایا کی مفتی صاحب
اینستھیزیا کے لئے مان جائیں مگر میں نہیں مانا میں نے کہا ہمارے ایک بزرگ جامعہ
اشرفیہ کے شیخ الحدیث مولا مفتی حسن امرتسری رح نے اپنی پوری ٹانگ بے ہشی کے بغیر
کٹوا لی تھی پوچھنے والوں نے پوچھا کہ آپ کودرد نہیں ہوا ڈاکٹرز کہتے ہیں آپ نے تو
سی تک نہیں کیا. مفتی حسن صاب رح نے فرمایا
میں تو اللہ کے ذکر میں مشغول ہو گیا تھا مجھے اپنے اردگرد کی کچھ خبر نہیں تھی.
مفتی محمود صاب رح نے فرمایا ڈاکٹر حیران ہو گئے اور میرا انگوٹھا میرے ساتھ باتیں
کرتے کرتے کاٹ دیا. میں باتیں سرجن سے کر رہا تھا مگر قلب اللہ تعالی کی جانب
متوجہ تھا.
یہ تو تھا جسمانی درد
برداشت کرنے کا حوصلہ اب ایک دو واقعات اندرونی درد برداشت کرنے کے سنانے
لگا ہوں میں حضرت مفتی صاحب کے پاس بیٹھا تھا دو ایک طالب علم مفتی صاحب کے پاوں
دبا رہے تھے کہ فون پر کال آئ پشتو میں بات چیت ہو رہی تھی اس لئیے کچھ سمجھ نہ آئ
مگر لہجے میں ہلکی سی پریشانی محسوس ہوئ فون رکھ کر پھر ہم سے محوِ گفتگو ہو گئے
وہی پہلا سا ہنسی مزاح اور علمی ادبی لطائف. تھوڑی دیر بعد دوبارہ فون آیا وہی
پشتو میں بات چیت اس لئیے پھر سمجھ میں کچھ نہ آیا مگر لہجہ پہلے والی فون کال پر
بات کی نسبت اب اطمنان والا تھا فون سُن کر الحمدللہ پڑھا تو اب میں نے استفسار کی
جرآت کی کہ حضرت کیا معاملہ تھا فرمایا میرے بیٹے لطف الرحمٰن کو زہریلا سانپ کاٹ
گیا تھا اس کی حالت ٹھیک نہیں تھی گھر والے پریشان تھے کیا کریں مجھے فون پر بتایا تو میں نے کہا وہی
سانپ کے کاٹے کے علاج والا دم کر دیں ان شاءاللہ ٹھیک ہو جائے گا. وہی ہوا دوبارہ
فون آیا کہ ہم نے دم کر دیا تھا اب حالت بہتر ہے الحمدللہ.
میں نےکہا حضرت اللہ کی قدرت پر اتنا پختہ یقین"
اللہ اکبر" فرمایا یہ یقین بھی اللہ کی رحمت اور اسی کا کرم ہے.
وہ بچہ جسے سانپ نے کاٹا تھا آج ممبر پارلیمنٹ ہے اور(
کے پی کے) اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہے.
یاد نہیں بھٹو مرحوم
کا دور تھا یا جنرل ضیا مرحوم کا مفتی صاحب طوفانی دورے پہ نکلے ہوئے تھے میں
اس دورے مَیں مفتی صاحب کے ساتھ تھا.دن رات جلوس جلسے استقبالیہ خطاب سفر, بے خوابی
اور تھکاوٹ شدید اوپر سے شوگر کبھی کم کبھی زیادہ ایک دن فرمانے لگے کل صرف آرام کریں
گے ساری سرگرمیاں منسوخ کر دیں مگر جماعتی احباب نہ مانے انہوں نے کہا حضرت ہم تو
سیاسی موت مر جائیں گے لوگ تُھو تُھو کریں گے مخالفین ہمارے کارکنوں کو جینے نہیں یں
گے. لِلہ ایسا نہ کریں. فرمایا اچھا اب تو دو گھنٹہ کے لئیے آرام کی نیند کرنے دو.
چنانچہ ایک کوٹھی میں آرام کے لئیے ہمیں لے جایا گیا کمرے میں مفتی صاحب کے ساتھ ایک
ان کے برادر نسبتی احمد جان (غالباََ یہی نام تھا) اور دوسرا میں تھا مفتی صاحب نے
ہمیں فرمایا کہ اب کوئ بھی ملنے آئے اس سے معذرت کر لیں. ہم نے کہا جی ٹھیک ہے.
مفتی صاحب ابھی پانچ سات
منٹ ہی سوئے ہونگے کہ دروازہ پر دستکیں شروع ہو گئیں احمد جان بھی سو رہے تھے میں
نے دروازہ کھولا تو باہر باگڑ سرگانہ کےزمیندار ایک جماعتی عہدیدار تھے کہنے لگے
مفتی صاحب سے ملوا دیں بہت ضروری کام ہے میں نے بہت کہا کہ مفتی صاحب بہت تھکے
ہوئے ہیں شوگر کی وجہ سے بہت کمزوری بھی ہے ابھی لیٹے ہیں ,سَوری, میں نے اندر نہ
آنے دیا اتنے میں احمد جان بھی جاگ گئے اور دروازے پر آگئے انہوں نے بھی انہیں
سمجھایا وہ بولے آپ ٹائم نوٹ کر لیں پانچ منٹ سے زیادہ وقت لوں تو بازو پکڑ کر
اٹھا دینا.
میں نے کہا یہ ٹلیں گے نہیں سو کہا آجائیں وہ اندر آئے
اور مفتی صاحب کے کمرے میں جو ہمارے کمرے سے متصل تھا وہاں جا کر زور سے سلام کیا
مفتی صاحب نیم بیدار تو ہو چکے تھے مکمل بیدار ہو گئے پوچھا کون انہوں نے تعارف
کروایا مفتی صاحب نے بڑی خندہ پیشانی سے استقبال کیا ہنس ہنس کے باتیں کیں پانچ
منٹ کےبعد وہ صاحب میرا شکریہ کِہ کر چلے گئیے. وہ مفتی صاحب سے کِہ رہے تھے حکومت
سے سفارش کریں کہ مجھے کسی ملک کا سفیر بنا دے. مفتی صاحب فرما رہےتھے کہ ہم
توحکومت کے حلیف نہیں حریف ہیں. وہ کہتے تھے ذاتی طور پر آپ کے حکمرانوں سے اچھے
تعلقات ہوتے ہیں آپ کا کہا نہیں ٹالیں گے. خیر وہ چلے گئے تو مفتی صاحب نے ہماری
خوب کلاس لی. احمد جان نے مجھ پر سارا ملبہ ڈال دیا جی اس نے انہیں اندر آنے کی
اجازت دی.بس تھوڑی سی ڈانٹ ڈپٹ کے بعد حضرت آرام کرنے اپنے کمرےمیں تشریف لے گئے.
میں حیران تھا یہ شخص کس مٹی کا بنا ہوا ہے ابھی بے ہوشی
سے گرتا جا رہا تھا مگر مہمان آیا تو کیسا ہشاش بشاش تھا اسے پتہ ہی نہیں لگنے دیا
اس کی بے وقت آمد سے انہیں کتنی تکلیف پہچی ہے.
بار ایسو ایشن کون سی تھی شہر کون سا تھا یاد نہیں مگر
دَور پاکستان قومی اتحاد کا یعنی ۱۹۷۷
کا تھا. بار میں خطاب کے عین درمیان ایک شرارتی بدعتی وکیل کھڑا ہو گیا اور اچھی
خاصی سیاسی گفتگو کو مذہبی رنگ دینے کے لئیے مولوی سمجھ کر فرقہ وارانہ قسم کا ایک
سوال کر دیا کہ مفتی صاحب جواب دیں گے تواصل موضوع سے ہٹ جائیں گے نہیں جواب دیں
گے تو پھر ہم شور مچائیں گے تب بھی ہماری جیت ہو گی سوال کیا کہ آنحضور صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نور تھے یا بشر تھے. مفتی صاحب مسکرائے اور اس کی شکل کو غور سے دیکھنے
لگے پھر بار کے پریزیڈنٹ سے پوچھا یہ صاحب ایڈووکیٹ ہیں کہ ویسے ہی کسی کے مہمان
کے طور پر تشریف لائے ہیں. صدرِ بار نے کہا جی بار ممبر ہیں مفتی صاحب بولے اچھا
تو پھر ان کی ڈگری جعلی ہو گی. کیونکہ ایک ایل ایل بی وکیل سے ایسے جاہلانہ سوال کی
توقع نہیں کی جا سکتی. وہ وکیل صاحب بڑے پریشان ہوئے. مفتی صاحب نے فرمایا سوال سے
ہی بندے کی اوقات پتہ چل جاتی ہے اللہ کے بندے سوال کا ایک طریقہ ہوتا ہے ایک قرینہ
ہوتا یے آپ وکیل ہیں کہ شادی شدہ, آپ سوال
یوں کرتے
کہ کیا رسول اللہ بشر تھے
یا جن تھے یا فرشتہ تو اس کا جواب ہے آپ بشر تھے.
اگر آپ کا سوال یوں ہوتا کہ آنحضور معاذاللہ ظلمت تھے یا
نور تو اس کا جواب بالیقین یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم نور ہی نور
تھے.
اب میں آپکےجاہلانہ سوال
کا جواب کیا دوں. پہلے سوال کرنا سیکھ کے آئیں پھر سوال کریں. پورا ہال تالیوں سے
گونج اٹھا تمام وکیل مفتی صاحب کے اس علمی جواب سے محظوظ ہوئے اور وہ شرارتی وکیل صاحب کا منہ دیکھنے والا
تھا.
اللہ حافظ
دعاجو:
سید سلمان گیلانی لاہور پاکستان.
۳.اگست ۲۰۲۰
0 تعليقات