غریب میراثی کا عالم بیٹا
مولانا امیر الدین جلال آبادی پنجاب کے مراثی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے پچاس ساٹھ ستر اور اسی کی چار دہائیاں پنجاب کی مذہبی اسٹیج کے بہت مقبول پنجابی مقرر تھےجٹکی مثالوں اور محاوروں کے برجستہ استعمال سے مشکل سے مشکل بات کو نہایت آسان بنا کر دیہاتی عوام کے سامنے پیش کرتے. خوش الحانی ان کی خاندانی خصلت تھی.
اپنے بارے میں خود سنایا کرتےتھے کہ میں غریب مراثی خاندان کا غریب بچہ تھا باپ کی تمنا تھی کاش میں بیٹے کو سکول پڑھا سکوں تاکہ بڑا افسر بنوں نسل در نسل یہ انسانیت کی تذلیل والا کام آگے میری نسل میں نہ چلے. مگر افلاس رکاوٹ تھا. سو مسجداور مدرسہ ہی ہم غریبوں کے پیٹ بھرنےاور تن ڈھانپنے کاسہارا اور آسرا تھا. چنانچہ میں قریب کے ایک مدرسہ میں داخل ہو گیا مولوی صاحب ہمیں پڑھاتےاور گاوں کے کچھ مُتمَوّل گھروں سے مدرسہ کے معلمین و متعلمین کے لیئے راشن وغیرہ بھی منگواتے اور اسے وظیفہ کا نام دیا جاتا اس کے لیئے مختلف طلباءکی ڈیوٹیاں بدلتی رہتیں .میں اپنی مراسیانہ جگتوں کی وجہ سے اساتذہ اور طلبہ اورگاوں کے لوگوں میں بہت مقبول ہوا اللہ نے ذہانت بخشی ہوئ تھی مولویوں کی نقلیں اتارنا میرا مشغلہ تھا گاوں کے نمبرداروں چودھریوں سے راہ و رسم بھی بڑھنے لگی.حُقّہ پینے کی لَت انہی حلقوں میں نشست و برخواست کی وجہ سے پڑ گئ.
ایک دن جوطالب علم راشن اکٹھا کرنے گاوں کے مختلف گھروں میں گئے واپس آکر بتایا کہ جوگھر زیادہ وظیفہ دیا کرتا ہے وہاں کوئ آورہ مگر خونخوار کتا تھا جب دو لڑکوں نے حسبِ معمول گھر کے باہر سے آواز لگائ "وظیفہ" کیونکہ گاوں میں ہماری پہچان اسی آواز سے ہوتی کہ درس سے بچے آج کا وظیفہ یعنی راشن لینے آئےہیں تو وظیفہ آنے سے پہلے ہی اس کتے نے جو ساتھ ہی کہیں چھپابیٹھا تھا ہمارے پیچھے پڑ گیا اور ہماری دوڑیں لگوا دیں.
مولانا امیر دین کہتے ہیں سردی کا موسم تھا کسی نے مجھے زِپ والی موٹی جیکٹ جس کی ٹوپی ساتھ ہی سِلی ہوتی ہے وہ پہننے کو دی تھی میں نےاتفاق سے وہی پہنی ہوئ تھی میں نے کہا میرے ساتھ آو آج کا وظیفہ نہ آیا تو بھوکا سوناپڑے گا. کہتے ہیں میں نے جیکٹ اتار کر ہاتھ میں پکڑ لی اور وظیفہ ملنے والے گھر کے باہر جا کے آواز لگائ "وظیفہ" تو وہ کتا بھوں بھوں کرتا مجھ پر جمپ لگانے ہی والا تھا کہ میں نے جلدی سے زپ والی جیکٹ اس کُتے پر ڈال دی اور پُھرتی سے زِپ بند کر دی اب اس کا دَم گُھٹنے لگا بھونک تو رہا تھا مگر کاٹنے کا رستہ نہ تھا میں نے تھوڑی زِپ ڈھیلی کر کے کُتے کا سَر ننگا کیا اور زور سے اپنے دانتوں سے اُسے کاٹ ڈالا. کتا ابھی اس عجیب سی اذیت میں مبتلا تھا کہ میں نے زپ کھول کے جیکٹ کو دو تین چار مرتبہ زور زور سےگُھما کر سامنے دیوار پرکُتے کو پٹخا دیا تو اُسکی چیخوں سے پورا گاوں گونج رہا تھا. اور ہم ہنس رہے تھے. کُتا دُور سے ہمیں دیکھ کر حیران ہو رہا تھا کہ میں تو کُتا ہوں یہ کون ہیں.
اگلے دن جب جیکٹ ہاتھ میں لے کر آواز دی "وظیفہ" تو وہ تیس فٹ کے فاصلہ پر کھڑا زبان حال سے گا رہا تھا
اکھیوں کے جھروکوں سے دیکھا جو تمیں سانورے تم دور نظر آئے بڑی دور نظر آئے.
یوں تو ان کے بہت قِصے مجھے یادہیں مگر میں ان کا ایک واقعہ جو خود وہ کَم ہی کسی کو سناتے تھے مُجھے سنایا. مولانا امیر دین ابتدائ تعلیم کے بعد کسی طریقہ سے دارالعلوم دیوبند پہنچ گئے اور ذہانت و قابلیت کی بناپر داخلہ مل گیا.حتی کہ شیخ ال عرب والعجم شیخ الاسلام سید حسین احمد مدنی رح سے شرف تلمذ حاصل کیا.
ایک دفعہ فیصل آباد کے کسی جلسہ میں مولوی صاحب کا بیان اور میرا کلام تھا جلسہ سے پہلے قیام گاہ پر کھانے کےبعدکچھ اور علماء بھی آگئے ایک عالم مجھے ان کا نام یاد نہیں نے کہا آپ سید ہیں آپ کے ابا کا مولوی صاحب بہت احترام کرتے ہیں شاید آپ کو وہ بات بتا دیں جو کسی کو نہیں بتاتے. میں نےکہا کیا پوچھوں , کہا بس اتنا پوچھیں آپ نےحُقہ پینا کیوں چھوڑا.
میں نے کہا ٹھیک ہے. سو جب ہم پروگرام سے واپس اپنی قیام گاہ پہ آئے تو میں نے اپنے ابا جی کے ذوقِ حُقہ نوشی کا ذکر چھیڑ دیا کہ لڑکپن سے وہ حقہ نوشی کر رہے ہیں چھوڑ نہیں رہے کہتے ہیں
مولوی صاحب کا لہجہ بدلنے لگا اور ساتھ ہی سسکیوں ہچکیوں کی آوازیں آنی شروع ہو گئیں. میں نےگھبرا کے پوچھا چچا کیا ہوا بولے سید زادے یہ کیا موضوع چھیڑ دیا.
میں نے کہا یُونہی بس ابا جی کےحقے تازے کرنے ,گوبر کی پاتھیاں اپلے خرید کے لانے, تمباکو لانا, پھر ہتھیلی پر مَسَل کے اسے باریک کر کے چلم میںں ڈالنا ,آگ سُلگانا سب یاد آ گیا جب سفر پہ جاتے سفری حقہ اور اس کے لوازمات ساتھ رکھتے. میری یہ باتیں سن کر وہ بولے سیدزادے سچ سچ دس تینوں ایناں مولویاں نے کِیہ آکھیا اے. یعنی سچ بتا تجھے ان مولویوں نے کَیا کہا ہے .میں نے کہا جی یہی کہ مولوی صاحب بہت حُقہ پیتے تھے مگر ایک واقعہ ایسا ہوا کہ اس کے بعدحقہ کے قریب تک نہیں گئے. ایک آہ بھری اور اٹھ کے بیٹھ گئے اور کہا میں وہ واقعہ سناتا ہوں مگر سُنایا نہیں جاتا چل پھر آج ہمت جمع کرتا ہوں اپنے ابا جی کو ضرور سنانا. میں ہمہ تن متوجہ ہوگیا.
پیارے دوستو وہ قصہء درد سننے والا ہے. ذرا انتظار. اللہ حافظ
دعا جو..
سید سلمان گیلانی لاہور... پاکستان.
۲۹ جون۲۰۲۰
0 تعليقات