Ticker

6/recent/ticker-posts

خطیب اسلام مولانا اجمل خان سے دعا مانگنا سیکھو

خطیب اسلام مولانا اجمل خان سے دعا مانگنا سیکھو

..................................

مولانا اجمل خان کا تعلق کے پی کے ہزارہ سے تھا لیکن اپنی دینی تعلیم مکمل کر کے آپ لاہور قلعہ گجر سنگھ  عبدالکریم روڈ پر آکر رہائش پذیر ہو گئے. یہاں جامعہ رحمانیہ مسجد و مدرسہ کی بنیاد رکھی.

حضرت کی زبان میں بلا کی تاثیر تھی سوز و گداز بے انتہا اور لہجہ میں شیرینی قند و نبات سے بھی زیادہ ہوتی تھی علمی وجاہت کے ساتھ ساتھ ظاہری حُسن سے بھی خالقِ حقیقی نے بہت نوازا تھا.

اخلاقِ حَسَنہ ان کی جبلت میں شامل تھے. تصنع نام کی بیماری سے کوسوں دور تھے حضرت احمد علی لاہوری رح اور ان کے جانشین حضرت عبیداللہ انور رح کی صحبتوں نے مولانا کی سیرت کو قدسی صفات سے متصف کر دیا تھا.

مولانا کی خطابت پورے ملک میں گونجتی تھی ختم نبوت کا میدان ہو یا دفاع صحآبہ و اہل بیت کا, جمعیة کاسیاسی اسٹیج ہو یا مذہبی ہم آہنگی و اتحاد کی تحاریک, مولانا نے ہمیشہ ہراول دستہ کا کردار ادا کیا.

میرے والد مرحوم نے مولانا کو میرے لڑکپن کے دور میں شیخوپورہ سیرت کمیٹی کے زیر اہتمام ایک کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی تو ہمارے گھر میں ہی قیام کیا سو یوں پہلی مرتبہ ان کے دیدار کرنے اور  خطاب سنے کا موقعہ ملا.

اس وقت بالکل  بتیس پینتیس برس کے جوان تھے مجھے والد صاحب نے حکم دیا کہ مولانا نے صبح فجر لاہور جاکر پڑھانی ہے اس لئیے سرگودھا سےآکر لاہور جانے  والی پہلی بس میں ان کو بٹھانا ہے, تم یہیں کمرے میں ان کے پاس سو جاو گھڑی کا الارم سیٹ کر لو وقت پر نکل جانا حضرت اپنےفجر کے درس کا ناغہ نہیں کرتے.

میں نے مولانا کو کیا اٹھانا تھا مولانا ساری رات کبھی نفل پڑھتے کبھی قرآن کی تلاوت یا ذکر اذکار میں مصروف ہو جاتے. علم اور عمل کو پہلی مرتبہ یکجا جس عوامی خطیب میں دیکھا  وہ مولانا اجمل خان رح  تھے.

مولانا کی خطابت قرآن و حدیث و فقہ کی کتب کے حوالوں کے علاوہ اصحاب و بزرگان دین کے واقعات سے مزین ہوتی تھی بیچ بیچ میں جب علمی لطائف اپنی تقریر میں  سموتے تو محفل کِشتِ زعفران بن جاتی. کوئ علمی نکتہ اچانک بول کر فرمایا کرتے

اللہ تعالی نے انہیں مولانا امجد خان کی شکل میں بالکل باپ جیسی صورت و سیرت والا وارث عطا کیا جس کے علم و عمل سے آج ایک دنیا  فیضیاب ہو رہی ہے. میں انہیں عرصہ تیس پینتس سال سے دیکھ رہاہوں. اپنے عظیم والد کا نقش ثانی ہیں. اللہ سلامت رکھے.

 مولانا ایک مستجاب الدعوات اللہ والے تھے لوگ دور دور سے صرف دعا کی درخواست لے کر آتے تھے

آج سے پچیس سال قبل کی بات ہے کہ میرے آفس میں میرے ایک کولِیگ  شہزاد چوہان صاحب تھے. اگرچہ بے ریش تھے مگر نماز روزہ کے پابند اور پریکٹیکل مسلمان تھے. بلکہ سردی گرمی ہر پیر اورجمعرات کے روزے رکھنا ان کا آج تک معمول ہے ایک دن مجھ سے کہنے لگے میں  مولانا اجمل خان سے مل چکا ہوں ان سے اپنی ایک پریشانی کے سلسلے میں دعا کروانے گیا  تھا مولانا نے بہت پر تاثیر دعا منگوائ رورو کے اشک بہا بہا کے دامن پھیلا پھیلا کے اللہ تعالی سے التجا کی تھی. اب چاہتا ہوں ان کا شکریہ بھی ادا کروں اور کچھ دیر ان کی صحبت میں بیٹھ کر ان کی علمی گفتگو سنوں ساتھ کچھ نصیحت بھی حاصل کروں. سو آپ مولانا اجمل خان سے ملوا دیں اصل میں مجھے ان سے دعا  کروانے کا حکم خواب میں ہوا تھا ایک غیبی آواز نے میری رہنمائ کی تھی. ان دنوں میں ایک سخت مشکل میں تھا اور اس مشکل سے بظاہر نکلنا محال تھا. میں نے خواب میں تو مولانا اجمل خان سے  دعا کروا لی تھی اب حقیقت میں کروانی ہے. چوہان صاحب کہتے ہیں میں سوچ رہا تھا کہ مولانا اجمل خان سے دعا کروانے کا واقعہ پہلے بھی میں سن چکا ہوں جس نے سنایا تھا اس نے مولانا اجمل خان کے دعا مانگنے کا انداز بھی بتایا تھا  میں خواب سے جب بیدار ہوا تو مجھے اپنے دوست کا کچھ سال پرانا واقعہ یاد آگیا واقعہ سننے سے پہلے ایک اور خواب بھی سن لیں کہ مجھے  مولانا اجمل خان سے دعا کروانے کی ہدایت  حضرت شاہ ابوالمعالی رح نے دی بلکہ فرمایا دعا مانگنے کا طریقہ اجمل خان سے سیکھو. یہ شاہ ابو المعالی رح مغل بادشاہ جہانگیر کے دور میں لاہور رہتے تھے اپنے وقت کے قطب اور ابدال تھے ان کا مزار گوالمنڈی کے ایریا میں مرجع خلائق ہے.

چوہان صاحب نے سنایا واقعہ یہ ہے کہ میرے ایک دوست کے  بھائ کو یونیورسٹی میں سٹوڈنٹ  یونین کے کچھ لڑکوں نے غلط فہمی کے سبب اٹھایا اور کسی ویران جگہ لے جا کر تشدد کا نشانہ بنایا. اس کے گھروالے اس کی گمشدگی سے بہت پریشان تھے تو اس کے بھائ نے مولانا اجمل خان سے دعا کروائ تھی مولانا نے رورو کے گڑگڑا گڑگڑا کے دامن پھیلاپھیلا کے اسی طرح دعا مانگی تھی اللہ کے کرم سے اگلے روز اس کا بھائ گھر واپس آگیا تھا یعنی دو تین حوالوں کی وجہ سے اب لازمی ہے کہ مولانا سے مل کر ان سے دعا کرواوں.

 میں نے امجد صاحب کے ذریعہ سے مولانا سے وقت ملاقات طے کیا اور ان کو لے کر مولانا کی رہائش گاہ پہ پہنچا شہزاد چوہان صاحب کی ان سے اپنی موجودگی میں تفصیلاََ ملاقات کروائ..

مولانا کو شہزاد چوہان صاحب نے بتایا کہ گیلانی صاحب کے بغیر میں پہلے بھی اپ سے مل چکا ہوں اور آپ نے دعا فرمائ تھی. مولانا نے پوچھا کیا دعا قبول ہوئ کہ نہیں انہوں نے کہا ابھی تک قبولیت نہیں ہوئ. مولانا نے فرمایا اللہ حکمت والا ہے وہ بہتر جانتا ہےکہ ہمارے حق میں کیا درست ہے کیا نادرست ہے.دیکھیں ایک بچے کے سامنے ایک پلیٹ میں سنکھیا  زہر ہو دوسری میں چینی ہو اوربچہ سنکھیا کی طرف ہاتھ بڑھائے تو والدین اسے روکیں گے بچہ سمجھے گا میرے والدین  بے رحم ہیں ,ظالم ہیں ,جو مجھ سے پلیٹ دور کر رہے ہیں جبکہ والدین اس بچّے پر رحم اور شفقت کر رہے ہوتے ہیں بعینہ علیم و حکیم اللہ جانتا ہے کیا میرے بندے کے حق میں بہتر ہے اور  کیا بہتر نہیں ہ

 اس بات کو سن کر میرے دوست کو تسلی ہو گئ مشکلات بھول گئیں اور مطمئن ہوکر اٹھا

اللہ تعالی ہماری بھی دعائیں قبول فرمائے

اللہ حافظ

 دعا گو

 سید سلمان گیلانی لاہور

۲. اگست ۲۰۲۰

Post a Comment

0 Comments