Ticker

6/recent/ticker-posts

زاہدِ تنگ نظر

زاہدِ تنگ نظر

میری پرسوں والی پوسٹ قطب الاقطاب شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوری رح کے مرید جنات کے حوالے سے تھی. اس پوسٹ پر سینکڑوں کمینٹس اس کی تحسین کے آچکے تھے مگر ان میں سے دو  منفی کمینٹس ایسے تھے جن کی وجہ سے مجھے دکھ پہنچا  حالانکہ ان کمینٹس کا میرے موضوع سے تعلق ہی نہ تھا وہ میری ذات اور میری شخصیت کو لوگوں میں غیر مقبول بنانے اور میرے کردار کو مجروح کرنے کے لیئے تھا ظاہر ہے میں نے یہ کالم نویسی کا ایک نیا کام شروع کیا ہے جس سے میں اپنے دوستوں کے دلوں میں اپنے اکابر و اسلاف کی محبت وعقیدت کی شمعیں روشن کر رہا ہوں اکابر کے روشن علمی کارناموں ان کی عظمت و عزیمت بھری زندگی کے مبنی بر صداقت واقعات اور ان کی روحانی شخصیت کے مختلف پہلووں سے  آگاہ کر کے ان کی پیروی کی دعوت دے رہاہوں

مگر دو صاحبان نے کوشش کی کہ اس کوشش کو سبوتاژ کر دیا جائے ,تحریر کی صداقت و حقانیت پر شک پیدا کرنے کی بجائے صاحب تحریر کو ہی مشکوک بنا کر لوگوں کے دلوں سے پہلے والی اور آئندہ آنے والی ہر تحریر کی عظمت و توقیر  کو کم کر دیا جائے. اللہ تعالی کے فضل و کرم سے  ان لوگوں کو میرے خلاف اورتو کچھ ملتا نہیں آجا کے میری مخلوط مشاعروں میں شرکت کو کفر کا درجہ دے کر تنقید کا نشانہ بناتے ہیں. دوسرا الزام یہ لگاتے ہیں کہ میں ان مشاعروں میں فحش گوئ کرتا ہوں.معاذاللہ. اول تو یہ جگہ ان باتوں پر بحث کی نہیں اور اگر بحث کرنی ہے تو ان باکس آجائیں تاکہ آپ کا خلوص نیت ظاہر ہو. مگر ان باکس آنے سے جو پبلک کو میرے متعلق گمراہ کرنے کامقصد ہے وہ پورا نہیں ہوتا.

 اب میں دونوں سوالوں کاجواب دیتا ہوں مخلوط مشاعروں میں شرکت;

مشاعرے جو ادارے کرواتے ہیں یہ ان پر منحصر ہے کہ ان کے سامعین کون ہوں کن کو بلوانا ہے. کسی شاعر کا یہ کام نہیں.اس کی دسترس سے باہر ہے کہ وہ شرط لگائے کہ جناب میں  ان محفلوں میں نہیں آونگا جو مخلوط ہونگی. اب یہ آپ کا اپنا کام ہے کہ  آپ اگر کسی ایسی محفل میں ہیں تو اپنے قلب و نظر کی حفاظت کریں جیسے جہاز ,بس, ریل میں سب مخلوط کام ہے.

اسمبلیوں اورٹی وی شوز میں ہمارے اور دیگر تمام مسالک کے پیر مرشد علماء محدث فقیہ مخلوط اجتماعات میں جاتے ہیں جن کو خوف خدا ہوتا ہے وہ اپنے دل اور نگاہ کی وہاں بھی حفاظت کرتے ہیں.

بعض علماءِ تبلیغ مختلف کالجز اور یونیورسٹیز کے مخلوط اجتماع میں تشریف لے جاتے ہیں میں خود پچھلے سال مولانا طارق جمیل مد ظلہ کے ساتھ گورنمنٹ کالج لاہورکے مخلوط فنکشن میں فلیٹیز ہوٹل میں تھا. مولانا کے بیان کےبعد میری پرفارمنس تھی. حقیقت یہ کہ میں خود یونیورسٹی میں مخلوط نظام تعلیم کے تحت ہی پڑھتا رہا ہوں. مجھ پر تو اعتراض بنتا ہی نہیں.

دوسرا اعتراض جی ان محافل میں فحش گوئی کرتا ہوں یا بیہودہ کلام سنتا سناتا ہوں.

اب میں اس پر کیا کلام کروں. لاحول ولا قوة الا باللہ. میرے بھائ جس طرح شعر کہنا فن ہے اسی طرح شعر سمجھنا بھی فن ہی ہے.

میں جس محفل میں ہوں وہ مقامِ تبلیغ نہیں ہے وہ ہنسنے ہنسانے کے لیئے بلائ گئ محفل  ہے میں اس میں قاری یا نعت خوان یا خطیب کی حیثیت سے نہیں  یا  ایک نعت گو کی حیثیت سے نہیں ایک مزاح گو کی حیثیت سے بلوایا گیا ہوں. میں ایک انٹرٹینر بن کر گیا ہوں اب میرا کام ہے کہ میں اپنے سامعین کی عمریں اور ان کا ذوق دیکھ کر کلام کا انتخاب کروں چھوٹےبچوں میں جاتا ہوں ان کی ذہنی سطح دیکھ کر کلام منتخب کرتا ہوں فیمیلی فنکشنز میں میاں بیوی  کی نوک جھونک کے مضامین چلتے ہیں کالجز یونیورسٹیز میں ان کی چوائس دیکھنی پڑتی ہے وہاں مَیں عشقِ مجازی کی مٹی پلید کرنے کے لیئے پہلے میدان سجاتا ہوں  اس کے لیئے پہلے اس سطح پر اترنا پڑتا ہے یعنی شکوہ لکھنا پڑتا ہے پھر جواب شکوہ, یہ معترضین شکوہ تو سنتے ہیں جواب شکوہ نہیں سنتے  اورصرف شکوہ سن کے کفر کا فتوی ٹھوک دیتے ہیں حالانکہ اگر شکوہ نہ لکھاجاتا تو ایمان سے کہیں جواب شکوہ کا مزہ آتا ہر گز نہیں. جس طرح علامہ اقبال رح شکوہ سے  جواب شکوہ تک لے گئے میں مجاز  سے حقیقت کی طرف لے کے جاتا ہوں جیسے رومی رح  و  سعدی  رح  کہانی اور قصہ سنا کر پھر کوئ سبق نکالتے ہیں. میری شاعری میں Below the belt  ناشائستہ, اخلاق سے گرے ہوئے, مبتذل   اشعار نہیں ملیں گے جب ایک حد تک نوجوانوں کو  لے آتا ہوں تو پھر میں کہتا ہوں کہ حسنِ مجازی نرا دھوکہ ہے فریب ہے عارضی ہے اس پر میرے ساتھی شاعر کہتے ہیں شاہ جی آپ اپنے کیئے کرائے پر پانی پھیر دیتے ہیں.

لوگ مجھے کہتے ہیں آپ سارے رومانس کا ستیا ناس کر دیتے ہیں, محبوب دنیاوی سے یکدم مجبوب حقیقی سے ملا دیتے ہیں.  دوست کہتے ہیں آخر مولویوں  والا کام کر دیتے ہو نا. اِدھر یہ زاہدانِِ تنگ نظر  ہیں جو مجھے ٹھرک باز اور فحش گو کہتے ہیں

گویا میری مثال تو وہی  ہوئ ;

زاہدِ تنگ   نظر   نے   مجھے    کافر    جانا.

 اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلمان ہوں میں.

میرا ان محافل میں شرکت کا  مقصد ایک تو یہ ہے کہ آج کا جوان جو داڑھی والوں کو فتنہ و فساد کا بانی دہشت گردی کا موجد اور دقیانوسیت کی بنیاد سمجھتا اسے معلوم ہو کہ نہیں اس طبقہ میں  محبت پیار اخوت کا پیغام دینے والے بھی ہیں مغرب نے کروڑوں ڈالرز لگا کر مولوی کا جو ایمیج خراب کر کے دنیا کے سامنے رکھا ہے کہ یہ بنیادپرست ہیں یہ عورت کو قیدی بنا کر رکھ دیں گے یہ ہر تفریح  بند کر دیں گے  یہ کھیل کے میدان مسجدیں بنا دیں گے اگر ان کو قوت نافذہ ملی تو سب چینلز پر پابندی لگ جائے گی وغیرہ... میری انٹری سے اس پروپیگنڈہ کا زورکم ہوا ہے. اور داھی والوں کا سافٹ ایمیج دنیا نے دیکھا.

دوسرا یہ کہ جہاں رقص و موسیقی کی محفل کو ہی صرف اینٹرٹینمنٹ کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا وہاں کئ جگہوں پر اس قسم کے مشاعرے شروع ہوئے اور Lesser evil  اھون البلیتین یعنی ہلکی برائی کے طور پر مجھے قبول کیا گیا.

میری فین فاولنگ پہلے مدرسوں کے طلباء وطالبات یا مذہبی رجحان کے افراد تھے اب کالج اور یونیورسٹی کے ہزاروں بچے ہیں  جو آج میری نعتیں منقبتیں ختم نبوت پر کلام سنتےہیں شئیرکرتےہیں ڈسکس کرتےہیں.

بیرون ممالک رستے کھلے وہاں لاکھوں لوگوں تک رسائ ہوئ اور مشاعروں کے بہانے وہاں ختم نبوت کا پیغام پہچانے کا ذریعہ بنا الحمدللہ. یوٹیوب پر دیکھ سکتے ہیں.

اس کے علاوہ بہت فوائد حاصل ہوئے اگر سب لکھوں بہت وقت درکار ہو گا. اس لیئے اسی پر اکتفاء کرتا ہوں.

 باقی وہ دو کمینٹس کس کے تھے اور ان کا تعلق کہاں سے  ہے میں ابھی نہیں بتاوں گا افسوس یہ ہے کہ وہ کسی دشمن کے نہیں ہیں اسی گروہِ علماء سے تعلق رکھتے ہیں جن کا میں ہمیشہ دفاع کرتا چلا آیا ہوں اور جن کی عظمت کا علمبردار بن کر یہ تحریریں  آپ کے زیب نظر کر رہا ہوں. میں نے ان کے پیج دیکھے توبہت ہی افسوس ہوا.

من از   بیگانگاں   ہر گز   نہ نالم.

 کہ با ما  ہر چہ کرد آں آشنا کرد.

 کل پھر جنت کی پتیاں.ان شاءاللہ

اللہ حافظ

دعا گو :سید سلمان گیلانی لاہور


Post a Comment

0 Comments