Ticker

6/recent/ticker-posts

ادھورا خواب (حصہ دوئم)

Adhura Khawab Story
Adhura Khawab Story
حصہ دوئم (آخری حصہ)
شاویز خان اس خبر کو سن کر بہت خوش تھا ، شاویز خان کو اس کا سپنا سچ ہوتا دیکھائی دے رہا تھا ۔ اس نے وزیرستان میں پہنچ کر اپنی شہادت کے لیے دعا بھی کی ۔اور مشکل پڑنے پر ثابت قدم رہنے کی دعا اپنے رب کے حضور کی ۔
وزیرستان میں دہشتگردی کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا۔ انٹیلیجنس ایجنسیاں مسلسل اپنا کام کر رہی تھی۔ آخر کار خداوند عالم نے دہشت گردوں کے خلاف پہلی کامیابی عطا کی۔ انٹیلیجنس ایجنسیوں کی مدد سے شاویز خان کی یونٹ کو دہشگردوں کے اک مضبوط ٹھکانے کا علم ہوا ، شاویز خان کی یونٹ نے دشمن کو دھول چٹانے کا فیصلہ کیا ، دہشت گردوں کے خلاف اس آپریشن کو شاویز خان کمانڈ کر رہا تھا -
اندھیرا اور خراب موسم کسی بھی فوجی کا اچھا دوست ہوتا ہے ،  رات کے اندھیرے میں دشمنوں پر ضربِ کاری کرنے کے لیے تین دن انتظار کرنا پڑا۔
اس رات چاند کی ستائیسویں شب تھی ۔ آپریشن کی ساری پلانگ اور تیاری دو دن پہلے مکمل کر لی گئی۔ شاویز خان نے تمام ساتھیوں کو مشن کے بارے بریفنگ دی ۔۔رات کے اندھیرے میں وطن کے سپاہی دشمن پر کاری ضرب لگانے نکلے ۔۔ وزیرستان کا علاقہ مشکل ترین تھا ، کیونکہ یہاں کے بلند و بالا پہاڑوں  پر رات کے اندھیرے میں سفر کرنا بہت مشکل تھا ۔۔پہاڑی کناروں کے ساتھ موجود گہری کھائیوں سے پھسلنے کی صورت میں موت کے منہ میں جانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
دشمن کے ٹھکانے پر پہنچنے کے لیے شاویز خان کی یونٹ کو چار گھنٹے کا مشکل سفر طے کرنا پڑا۔ دشمن نے اک پہاڑ کی چوٹی پر اپنا ٹھکانہ بنا رکھا تھا ۔ پہاڑی کی اونچائی دشمن کو برتری دلاتی تھی کیونکہ نیچے سے اوپر حملہ کی نسبت اونچائی سے نیچے حملہ کرنا زیادہ بہتر اور مقابل کے لیے خطرناک ہے۔ پلان کے مطابق شاویز خان نے اپنے سپاہیوں کو دو پارٹیوں میں تقسیم کیا۔ اک پارٹی حملہ کرنے کے لیے اور دوسری پارٹی بھاگنے والوں سے نمٹنے کے لیے۔ دوسری پارٹی کو کیپٹن صبیح رحمانی کی قیادت میں پوزیشن کر دیا۔ اور خود شاویز خان دشمن کے ٹھکانے کے بلکل قریب پہنچ گیا۔ سب سے پہلے پہرے پر موجود دشمن کو بڑی تیزی سے جہنم واصل کیا ۔ تھوڑی دیر بعد دشمن کا ٹھکانہ دھماکوں کی آوازوں سے گونج اٹھا۔ شاویز خان اور اس کے ساتھیوں نے اللّٰہ اکبر کے نعرے ساتھ دشمن پر قیامت ڈھا دی۔ دشمن اس حملے کے لیے بلکل بھی تیار نہ تھا۔
تھوڑی ہی دیر میں دشمنوں کی لاشوں کے ڈھیر لگ گئے ۔ بچ جانے والوں دہشت گردوں نے ادھر اُدھر بھاگنا شروع کر دیا۔
دشمن اندھا دھند فائرنگ کرتے بھاگ رہا تھا۔ بھاگنے والوں کو جہنم واصل کرنے کے لیے کیپٹن صبیح رحمانی کی ٹیم اونچی ٹیکری پر پہلے سے موجود تھی ۔ جو چن چن کے ملک پاکستان کے ان دشمنوں کا خاتمہ کر رہی تھی ۔
شاویز خان نے اپنی پارٹی کو آگے بڑھانا شروع کر دیا۔ وہ کسی شیر  کی طرح اپنے شکار پر چھپٹ رہا تھا۔ دشمن کی جوابی فائرنگ سے شاویز خان کے دو ساتھیوں کو گولی لگی۔ جس سے انہوں نے جام شہادت نوش کیا۔ فائرنگ کے تبادلے کے دوران شاویز خان کی دائیں ٹانگ میں گولی لگ گئی۔ لیکن بہادر باپ کا بہادر بیٹا بہتے ہوئے خون کے ساتھ تمام دشمنوں کے خاتمے تک لڑتا رہا۔تھوڑی دیر میں دشمن کے ٹھکانے پر سبز ہلالی پرچم لہرا رہا تھا۔ اسی اثناء میں کیپٹن صبیح رحمانی کی ٹیم بھی پہنچ گئی ۔ شاویز خان خوش تھا کہ اس کی سب سے بڑی خواہش پوری ہونے جا رہی ہے لیکن قدرت کو کچھ اور منظور تھا ۔
شاویز خان کو ابتدائی طبی امداد دی گئی ، خون کے بہاؤ کو روک دیا گیا ۔ اور اس کو یونٹ پہنچایا گیا ۔ جہاں سے شاویز خان کو سی ایم ایچ راولپنڈی منتقل کیا گیا۔
مسلسل 24 گھنٹے ٹانگ میں گولی رہنے اور خون کے بہاؤ کی وجہ سے ٹانگ مکمل طور پر صحت یاب نہ ہو سکی۔ 3 مہینے بعد شاویز خان کو راولپنڈی میں ہی اک یونٹ میں پوسٹ کر دیا گیا ۔

اس واقعے کے بعد شاویز خان کو دوبارہ کبھی کسی مشن میں حصہ لینے کا موقع نہ ملا اور اس کی شہادت کی خواہش ادھورا خواب بن کر رہ گئی

إرسال تعليق

0 تعليقات