Ticker

6/recent/ticker-posts

بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

 



پہاڑی کے دامن میں وہ اکیلی مٹی سے بنے اک گھر میں رہتی تھی، اس کے ساتھ اس کا جواں سالہ بیٹا بھی رہتا تھا جو قریبی شہر میں محنت مزدوری کر کے اپنا اور اپنی ماں کا پیٹ پالتا تھا۔ان کے گھر کے نزدیک تقریباً تیس سے چالیس گھر تھے، تمام لوگ محنت مزدوری کر کے بمشکل گزر بسر کرتے تھے۔ لیکن گاؤں کے لوگوں میں اتفاق نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ گاؤں کے تمام لوگ اسے اماں کے نام سے پکارتے تھے،

 اس کے بیٹے کا نام راجو تھا.جو قریب کے شہر میں کپڑے کا کام کرتا تھا راجو جب شام اپنی ماں کے پاس لوٹتا تو اپنی ماں کے لئے ضرورت زندگی کی تمام اشیاء لے کر آتا تھا. راجو کو اپنی اماں سے بےحد پیار تھا ، وہ جب اپنی دکان سے لوٹتا تو اس کی ماں دروازے پر اس کا انتظار کر رہی ہوتی تھی ۔ وہ اماں کی بھرپور خدمت کرتا ، اس نے کبھی اماں کو کسی چیز کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔

 وقت اسی طرح گزرتا گیا ، اب راجو کی اماں پر بڑھاپے کی پرچھائی آنے لگ گئی تھی , جسم میں وہ توانائی نہ رہی ، اس لئے راجو جلد دکان سے واپس لوٹ آتا تھا ، آکر اماں کے پاس بیٹھ جاتا ، اور ان کی خدمت کر کے ان کی دعائیں لیتا۔۔ 

سردی کا موسم شروع ہو گیا تھا ، رات کے وقت سردی کی شدت میں بے پناہ اضافہ ہو جاتا تھا ، بڑھاپے کی وجہ سے اب اماں کے لئے سردی برداشت کرنا مشکل ہو رہا تھا ،سخت سردی ہڈیوں میں سرایت کر رہی تھی۔ 

آج راجو کی دکان پر سارا دن گاہکوں کا کافی رش رہا ،شام جب راجو جب دکان سے واپس لوٹ رہا تھا تو اس نے بازار سے اپنی اماں کے لئے مچھلی خریدی تاکہ وہ اماں کو سردی کے زور سے محفوظ رکھ سکے، دکان سے گاؤں کے راستے پر ایک ویران جنگل پڑتا تھا ، جب وہ اس جنگل کے پاس پہنچا تو دو نقاب پوش آدمیوں نے اس کا راستہ روک لیا ، انہوں نے راجو سے اس کی تمام رقم چھین لی اور ڈنڈوں کے وار کر کے اسے موت کی گھاٹ اتار دیا۔ 

اماں اپنے بیٹے کا انتظار ہمیشہ کی طرح دروازے پر کھڑے کر رہی تھی۔ تھوڑی دیر میں اس کا راجو گھر کی دہلیز پر تھا ،لیکن جسم اور روح کا رابطہ کٹ چکا تھا ، جنگل کے راستے گزرنے والے گاؤں کے لوگوں نے جب راستے میں راجو کی لاش دیکھی تو وہ اسے اٹھا کر گھر لے آئے، اماں کے لئے اپنے بیٹے کو اس طرح دیکھنا قیامت سے کم نہ تھا ، راجو ہی اماں کا واحد سہارا تھا ، لیکن قدرت الٰہی کے آگے کب کسی کی چلتی ہے

اماں کے لئے اب زندگی بدل چکی تھی ، اس کا سب سے بڑا سہارا اسے چھوڑ کر جا چکا تھا ، جب راجو زندہ تھا تو ہر چیز کی فراوانی تھی ، اماں بڑے دل کی مالک تھی ، وہ ہمیشہ اپنے ہمسائیوں کی مدد دل کھول کر کرتی تھیں۔ لیکن اس گاؤں کے لوگوں کی عادت اماں جیسی نہیں تھی ، گاؤں کے لوگوں نے اماں کی مدد تو دور کی بات اس سے بول چال بھی چھوڑ دیا ، نوبت فاقوں تک آن پہنچی تھی ، 

اماں کے گھر کی چیزیں آہستہ آہستہ بکنے لگیں ،وہ چیزیں جو اس کے بیٹے نے بہت محنت سے بنائی تھی آہستہ آہستہ سب بک گئی ،غربت کا یہ عالم تھا کہ اماں کو کئی کئی دن فاقے کرنے پڑتے ، ان کا جسم دن بدن کمزور ہوتا چلا گیا، کبھی کبھی اماں اٹھتی تو چکرا کر گر جاتیں ۔ اماں میں اک سب سے بڑی چیز انکی خوداری تھی ، اماں کو ان کی زندگی میں کبھی کسی سے بھیک مانگتے نہیں دیکھا گیا 

 جب کبھی گاؤں میں کوئی لنگر پکاتا تو اماں کو کوئی دے جاتا تو اماں کھا لیتیں ۔ اماں جب اپنے بیٹے کو یاد کرتی تو ان کے آنسو تھمنے کا نام نہیں لیتے تھے ، وہ اکثر دعا کرتی تھیں کہ اے پروردگار مجھ بے سہارا کو میرے بیٹے کے پاس بلا لے ۔۔ 

اماں کے محلے کے لوگوں کے دل کسی پتھر سے بھی سخت تھے ، اک دن محلے میں ایک شخص نے اماں کو ان کے گھر سے باہر نکال دیا اور اماں کے گھر پر قبضہ کر لیا، اس رات اماں گھر کے باہر گلی میں بیٹھی رہی ، لیکن محلے کے کسی شخص نے ان پر توجہ نہ دی اور نہ ہی رحم کھایا۔۔ 

سردی کے کہر اور لوگوں کی سفاک دلی دیکھ کر قدرت کو ہی ترس آ گیا ، اس نے اماں کو ان کے بیٹے کے پاس بلا لیا۔۔ صبح گاؤں کے لوگوں کو اماں کی لاش گلی میں ٹھنڈ سے اکڑی ہوئی ملی ۔ گاؤں کے دوسرے کونے میں چند دل پہلے آئے مولوی صاحب کو جب اس کا علم ہوا تو انہیں لوگوں کے اس ظلم پر حیرت اور دکھ ہوا، انہوں نے اپنی بیوی کے ساتھ مل کر اماں کی تدفین گاؤں کے قبرستان میں کی ۔۔اس واقعہ کا مولوی صاحب پر اتنا اثر ہوا کہ انہوں نے اس گاؤں کو خیر باد کہہ دیا اور کہیں اور جا بسے ،

کچھ عرصے بعد گاؤں میں ایک عجیب وبا پھیل گئی، لوگوں کے پیٹ اور آنکھیں بڑھنے لگی ، لوگوں کے پیٹ اس قدر بڑھ جاتے کہ وہ منہ کے بل گر پڑتے، اور ان کی آنکھیں ابل پڑی جن کے وہ پجاری تھے ۔۔ اس طرح قدرت نے گاؤں والوں کو ان کی سفاکیت کا بدلہ دے دیا

Post a Comment

0 Comments