Ticker

6/recent/ticker-posts

حضرت لاہوری رح کے مرید جنات

حضرت لاہوری رح کے مرید جنات

1970 کے عام انتخابات کے لیئے کمپین شروع ہو چکی تھی  شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوری رحمة اللہ علیہ کے لختِ جگر امام الھدیٰ شیخ عبیداللہ انور نَوَّر اللہ مرقدہ لاہور سے پی پی پی پی کے بڑے مضبوط کینڈیڈیٹ غالبا ملک اختر  کے مقابلہ میں جمعیة علماء اسلام کی طرف سے قومی اسمبلی کی نشست کے لیئے امیدوار تھے.

پِیر خانہ ہونے کی وجہ سے ہمارا حق تھا کہ ان کے لیئے جدوجہد کرتے دامے درمے قدمے سخنے  میں سے قدمے اور سخنے پر تو  دسترس حاصل تھی لہذا میں شیخوپورہ سے لاہور حضرت کے انتخابی جلسہ میں شریک ہونے اور انتخابی کلام پیش کرنے روزانہ شیرانوالہ گیٹ لاہور حاضر ہو جاتا اکثر رات کو ٹرانسپورٹ نہ ملتی اور مجھے صبح پہلی بس پکڑنی ہوتی تاکہ گھر پہنچ کر ناشتہ کے بعد کالج بروقت پہنچ سکوں میں اُس وقت گورنمنٹ انٹر میڈیٹ کالج شیخوپورہ میں پڑھتا تھا جلسہ کے بعد مجھے جب رات لاہور ہی رکنا ہوتا تو شیرانوالہ مدرسہ قاسم العلوم کی بلڈنگ میں ہی قیام کا بندوبست کیا ہوا پاتا. حضرت انور کی تواضح, انکساری,عاجزی تقویٰ, طہارت ,سخاوت , عبادت, ریاضت اور قرآن وسنت کے احکامات پر عمل کا جنون و جذبہ ان کے روز و شب کے معمولات عین اپنے عظیم والد  قطب  الاقطاب حضرت لاہوری رح کی زندگی کا عکس تھے.یہ مجھ پر اللہ کا احسان ہوا کہ اس نے مجھے حضرت کو سمجھنے کا اتنے قریب سے موقعہ نصیب کیا اور یہ ادراک بخشا کہ آج مَیں جس شخص میں یہ ملکوتی صفات دیکھ رہا ہوں اس کے  بزرگوں کا تو پھر کیا ہی کہنا.

میں کسی اور پوسٹ میں کچھ واقعات ان کی مندرجہ بالا صفات کے حوالہ سے بھی قلمبند کرونگا انشاءاللہ.

 اس پوسٹ میں ,اِس ہوسٹ کے عنوان پر ہی بات کرونگا.

 جب رات شیرانوالہ مدرسہ میں قیام ہوتا تو انتخابات  کی وجہ سے دن رات مدرسہ میں لوگوں کے آنے جانے ,کارکنوں کی نعرہ بازی سے آرام کی نیند کہاں ہو سکتی تھی. سو حضرت نے مدرسہ کی لائیبریری میں فرش پر میرا بستر لگوا دیا اور حکم دے دیا ک لائیبریری میں رات جب شاہ صاحب سونے کے لیئے جائیں تو پھر کسی اور کو وہاں جانے کی اجازت نہیں ہے.

قیام کی پہلی رات مجھے بستر  پر  لیٹتے  ہی اپنی ٹانگوں اور پیٹ پر بوجھ بوجھ محسوس ہونا شروع ہوا اور وقفہ وقفہ سے آہستہ آہستہ کچھ وِسپرنگ سی یا گونگے جس طرح اشاروں میں غُوں غُوں کر کے بات چیت کرتے ہیں ایسی آوازیں ساری رات آتی رہیں مجھے ڈر سا لگا مگر اطمنان یہ تھا کہ جہاں میں اِس وقت پڑا ہوں یہاں مُجھے نقصان نہیں پہنچے گا.

مجھے لگا کہ یہ مخلوق  میری دوست ہے.

 نیند کیا آتی پہلی بَس کا وقت ہوا تو پیدل ہی بادامی باغ لاری اڈہ چلا گیا اور  پھر  اس کمپین کے دوران یہی معمول رہا. اگلی کچھ راتیں بھی ایسے ہی گزریں. اب مجھے عادت سی ہونے لگی میں جب سونے آتا تو چند لمحوں کےبعد کوئ مخلوق میرے بدن کو دباتی کبھی لحاف کے اوپر سے کبھی لحاف کے اندر سے. پھر میں ان سے درخواست کرتا کہ بھیا بس کرو میں اب سونا چاہتا ہوں صبح شیخوپورہ کالج پہنچنا ہے اور رات کو پھر آنا ہے.

ایک دن حضرت نے پوچھا شاہ جی حضرت لاہوری  کے مرید تنگ تو نہیں کرتے؟ میں نےعرض کیا  جی کرتے تو ہیں. فرمایا اچھا میں انہیں منع کرونگا. پھر شاید حضرت کو بھول گیا اور اگلی رات مجھے اُس مخلوق نے تنگ تو نہ کیا مگر آخرِ شب یہ سوچ کر کہ میں گہری نیند میں ہونگا اور اُس وقت میں واقعی گہری نیند میں تھا مجھے انہوں نے ڈولی ڈنڈا بنا کر اٹھایا اور لایبریری کے سامنےایک چھوٹا سا کمرہ تھا جہاں دو تین بجے تک خوب انتخابی ہلہ گلہ تھا اور اب کارکن اپنے گھروں کو جا چکے تھے مجھے وہاں بڑے آرام سے لٹا دیا. مجھے جب وہ منتقل کر رہے تھے میری آنکھ اُس وقت کُھل چکی تھی. خیر میں نے رات حضرت کے گوشگزار یہ واقعہ کیا تو وہ پریشان ہوئے اور اُس رات جو سڑھیوں کے اوپر ظہیر میر ایڈووکیٹ کا چھوٹا کمرہ تھا ویاں بستر لگوا دیا اور میر صاحب کو کچھ دن کسی اور کے ساتھ بستر شئیر کرنے کا حکم ہوا.

بعد میں حضرت نے بتایا بڑے حضرت کے مرید جنات آپ کی خدمت کرنا چاہتے تھے انہوں نے طالب علموں کو بدن دباتے دیکھا ہوا تھا وہ  سمجھتے تھے کی تھکے ہوئے بندے کا بدن دبانے سے استراحت و آرام ملتا ہے ان کو یہ بھی معلوم یے کہ آپ شیخوپورہ سے آتے جاتے ہیں تو یقیناََ تھک جاتے ہونگے اس لیئے آپ کو دباتے ہیں اورفرمایا آج جو آپ کو اٹھا کر دوسرے کمرے میں پہنچایا تو اس کی وجہ انہوں نے یہ بتائ ہے کہ شاہ جی کے پاوں لائبریری ریکس میں پڑے کلام پاک ان کی تفاسیر, احادیث و فقہ کی کتب کی طرف  ہو جاتے تھے اس کی نشاندہی ہمارے ایک مہمان بزرگ نے کی تھی اور یہ مشورہ دیا تھا کہ اس بے ادبی سے جو دانستہ نادانستہ ہو رہی ہے اُس سے خود بھی بچیں اور شاہ جی کو بھی بچائیں.

انہی ظہیر میر ایڈووکٹ نے جو ہفت روزہ خدام الدین کے سرکولیشن مینیجرتھے ان جنات کے بہت سے واقعات سنائے ایک واقعہ مجھے بڑا دلچسپ لگا اسی لئیے یاد بھی رہ گیا.

کہتے ہیں کہ مولانا عبیداللہ انور رح کے گھر پرآ کر آدھی رات کو کسی آدمی نے بہت شور مچایا دروازہ زور زور سے بجایا محلہ جاگ اٹھا سامنے ہی تو مدرسہ ہے مجھے بھی شور محسوس ہوا میں باہر نکلا اور سائل سے پوچھا کیا بات ہے بھئ اس وقت اس نامناسب وقت میں پورے محلہ کی نیند خراب کر رہے ہو سحر قریب ہے بس تین چار گھنٹے باقی ہیں مسجد میں آرام کر لو وہیں فجر کی نماز میں حضرت سے مل لینا.

وہ  نہیں مانا  کہا ابھی ملنا ہے , میں قصور سے آیا ہوں اور ابھی قصور واپس جانا ہے. میر صاحب کہتے ہیں میں نےبڑا سمجھایا وہ اپنی ضد پر اڑا رہا. اتنے میں حضرت کے گھر سے ایک دو اڑھائ فٹ کا منحنی سا ٹِھگنا شخص برآمد ہوا اور بندر ک طرح پُھدک کر اس شخص کے کندھوں پر سوار ہو گیا  اپنے موٹے بَھدّے چھوٹے چھوٹے ہاتھ اس کے  سر پر تیزی سے چلانے شروع کر دیئے اور چلا چِلّا کر بولا جاتے ہو کہ نہیں جاتے, جاتے ہو کہ نہیں جاتے, وہ مسافر  یکدم اس ناگہانی  آفت  اور اس اچانک حملہ سے گھبرا گیا منتیں سماجتیں کرنے  لگا کہ جاتا ہوں  بس جاتا ہوں  خدا کے واسطے مجھے چھوڑ دو وہ ٹِھگنا جِن پھر بندر ہی کی طرح چھلانگ لگا کر اترا اور غصہ سے گھورتا ہوا اندر واپس چلا  گیا. کافی لوگوں نے یہ منظر دیکھا.

خیر پھر وہ شخص مسجد چلاگیا اور فجرکے وقت حضرت سے ملا.

اللہ حافظ.

سید سلمان گیلانی. لاہور پاکستان.

۷ جولائ ۲۰۲۰


إرسال تعليق

1 تعليقات